حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دور حاضر کے بگڑتے ہوئے ماحول کے پیش نظر حجت الاسلام مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی مدیر ساغر علم دہلی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آدم سے لیکر خاتم تک اور پیغمبر ختمی مرتبت سے آج تک مکمل تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ نکالیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ حجاب ایک ایسی شئے ہے جس کا وجود دنیا کے ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔
مولانا غافر رضوی نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: حجاب صرف اسلامی خواتین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے ادیان و مذاہب میں بھی اس چیز پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ چاہے ہندوایزم ہو یا سکھ ایزم، مسیحیت ہو یا یہودیت یا دنیا کی کوئی اور قوم؛ جس قوم کی بھی تاریخ پڑھیں گے اس میں پردہ کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔
مولانا موصوف نے مزید کہا: پردہ، عورت کا گہنہ ہے۔ حجاب، خاتون کا زیور ہے، زیور کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خاتون کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجائے! عورت کے زیور کی مخالفت کرنا، عاقلانہ کام نہیں ہے۔
ساغر علم کے مدیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خوبصورت چیز، چھپی ہوئی اچھی لگتی ہے۔ جو چیز چھپانے والی ہو اسے بازار میں نہیں لایا جاتا۔ ہمارے سماج میں عورت کے پردہ کو ایک چاکلیٹ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے مثلاً ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایک چاکلیٹ کھلی ہوئی پڑی تھی اور ایک چاکلیٹ ریپر میں پیک تھی، جو کھلی ہوئی پڑی تھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں گندی مکھیاں لپٹی ہوئی تھیں لیکن جو مکمل حجاب میں تھی اس کی طرف کسی بھی گندی مکھی کی نظر نہیں تھی۔ اس تصویر نے یہ سمجھانا چاہا ہے کہ گندگیوں سے محفوظ رہنے کے لئے حجاب ضروری ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حجاب، عورت کا مسلم الثبوت حق ہے۔ حجاب کسی خاص دین و مذہب سے مربوط نہیں ہے بلکہ یہ ہر مذہب کی عورت کے لئے زیور ہے، کون بے غیرت مرد ایسا ہوگا جو اپنی ماں بہنوں کو بازار میں برہنہ دیکھنا پسند کرے گا؟ اگر کسی کی ماں بہنیں بازار میں عریانیت کے عالم میں گھومتی پھرتی نظر آرہی ہیں تو اس کا مطلب صاف صاف یہی ہوتا ہے کہ اس گھرانہ کے مردوں کی غیرت و حمیت مرچکی ہے۔ بے ضمیر افراد ہی اپنی گھریلو خواتین کو بازار میں عریانیت کی نذر کرتے ہیں۔